
اڈیالہ جیل میں عمران خان نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ قاضی فائز عیسی جانے والا ہے اب جنرل فیض کا ڈرامہ رچا دیا گیا ہے میں مطالبہ کرتا ہوں جنرل فیض کا اوپن ٹرائل کیا جائے، اس ٹرائل میں میڈیا کو عدالت جانے اورکوریج کی اجازت دی جائے گی، اوپن ٹرائل سے ملک کا فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا، اوپن ٹرائل سے رجیم چینج اور9مئی کی سازش بے نقاب ہو جائے گی، میں نے بھی اگر بغاوت کی ہے تو میرا بھی اوپن ٹرائل کریں، یہ کون سی جمہوریت میں ہوگا کہ سابق وزیراعظم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا جائے، ڈپٹی سپرٹینڈنٹ اکرم کو اٹھا لیا گیا اس کی بیوی انصاف مانگ رہی ہے یہاں کوئی انصاف نہیں مل رہا، یہ سب کچھ کر کے صرف اور صرف چیف جسٹس
قاضی فائض کو تحفظ دیا جا رہا ہے، یہ سب اتنی تیزی سے اس لیے کیا جا رہا ہے کہ میرے خلاف تمام مقدمات ختم ہو رہے ہیں
عمران خان نے کہا کہ نیب تفتیشی نے بیان دیا کہ ملک ریاض کا پیسہ چوری کا نہیں تھا اس کے بعد 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس ختم ہو چکا ہے، یہی بات ہم نے کابینہ میں ڈسکس کی تھی کہ جب یہ پیسہ چوری کا نہیں تو اسے پاکستان لایا جائے، نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے ملک ریاض کی رقم مشکوک ٹرانزیکشن پر فریز کی تھی، رقم اس لیے فریز کی گئی کہ حسن نواز کی 9 ارب مالیت کی پراپرٹی 18 ارب روپے میں خریدی گئی تھی، عمران خان نے کہا کہ ہمیں ملک ریاض نے کہا تھا کہ این سی اے کے ساتھ ڈیل کو پبلک نہ کیا جائے اسی لیے ہم نے اس ڈیل کو خفیہ رکھا، ملک ریاض اور این سی اے کی ڈیل کو ایف ائی اے اور نیب کھول سکتے تھے، برطانیہ سے جو رقم پاکستان ائی اس سے اب تک یہ 20 ارب ڈالر کما چکے ہیں، نئے توشہ خانہ کیس میں بھی انعام شاہ اور اپریزر کو وعدہ معاف گوا رکھا گیا ہے،
ایک صحافی کے سوال کیا کہ جنرل فیض پر الزام ہے کہ انہوں نے9 مئی کی سازش کا منصوبہ بنایا آرمی کی تنصیبات پر حملوں کے ٹارگٹ سیٹ کیے جس پر اپ نے عمل درآمد کروایا؟ جواب میں عمران خان نے کہا کہ جس نے میرے اغوا کا حکم دیا تھا اسی نے 9مئی کی سازش تیار کی تھی، اسی نے 9مئی واقعات کس سی سی ٹی وی فوٹیج چوری کی ہے

صحافی نے سوال کیا کہ اپ کی گرفتاری کا حکم کس نے دیا تھا؟ عمران خان نے جواب دیا کہ جو رینجرز کنٹرول کرتا ہے
صحافی نے سوال کیا کہ رینجرز کو کون کنٹرول کرتا ہے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے میں وزیراعظم رہا مجھے ایک دفعہ رینجرز کی ضرورت پڑی مجھے پتہ ہے کہ رینجرز کو کون کنٹرول کرتا ہے، مجھے پتہ ہے 9مئی کو میرے اغوا کا حکم کس نے دیا تھا۔
صحافی نے سوال کیا کی آپ کی گرفتاری کا حکم کس نے دیا تھا اپ نام بتائیں؟ عمران خان نے جواب دیا کہ میری گرفتاری کا حکم فوج کے نمبر1، بادشاہ اور سپر کنگ نے دیا تھا۔ اسی لیے کہہ رہا ہوں میرے ٹرائل کو اوپن کیا جائے کس نے حملہ کیا کس نے سازش تیار کی سب کچھ سامنے ا جائے گا، 9 مئی نیشنل سکیورٹی کا نہیں لوکل معاملہ ہے، یہ ملٹری کا انٹرنل معاملہ نہیں یہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم کے اغوا کا معاملہ ہے، آپ جب رینجرز کا استعمال کرتے ہیں تو وہ نمبر1 کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتا،
صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے ملک ریاض کے کہنے پر مان لیا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں اپ نے کابینہ سے منظوری لینے سے قبل یہ تحقیقات کیوں نہیں کرائی کہ یہ پیسہ پاکستان سے باہر کس بینکنگ چینل کے ذریعے گیا؟ جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہمیں ملک ریاض نے بتایا تھا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں پھر ہم نے کیا تحقیقات کرنی تھیں۔
صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے صرف ملک ریاض کے کہنے پر یقین کر لیااور اسکو تحفظ دیا؟ عمران خان نے جواب دیا کہ ملک ریاض نے مجھے نہیں کہا تھا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں۔
صحافی نے سوال کیا کہ ملک ریاض نے آپ کے مشیر شہزاد اکبر کے ذریعے اپ کو پیغام بھجوایا تھا؟ عمران خان نے جواب دیا کہ جی بالکل مجھے شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ملک ریاض نے بتایا ہے کہ یہ پیسہ چوری یا منی لانڈرنگ کا نہیں۔ ملک ریاض کے بیان کے بعد ہم کیا تحقیقات کرتے ہمیں اس کی تحقیقات کے لیے برطانیہ جانا پڑتا سول عدالت میں کیس کرتے جس کا فیصلہ انے میں5سال لگ جاتے۔
ملک ریاض اور این سی اے کے درمیان جو ڈیل تھی اسے خفیہ رکھنا مجبوری تھی لیکن نیب اور ایف ائی اے اس کو اوپن کر سکتے ہیں، اس ڈیل کو خفیہ رکھنا ساری کابینہ کا متفقہ فیصلہ تھا،
صحافی نے سوال کیا کہ بشری بی بی کو گزشتہ روز 12 مقدمات سے ڈسچارج کیا گیا اس کے باوجود اپ عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں؟ عمران خان نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی اور چیف جسٹس اسلام اباد ہائی کورٹ کے علاوہ کسی جج پر انگلی نہیں اٹھائی
صحافی نے سوال کیا کہ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اپ جیل کے باہر اور اب جیل کے اندر سے بھی فیض حمید سے رابطے میں تھے؟ خان نے جواب دیا کہ میرا فیض حمید سے اس وقت تک رابطہ رہا جب تک جب تک وہ ڈی جی ائی ایس ائی اور میں وزیراعظم پاکستان تھا، جیسے ہی فیض حمید ریٹائر ہوئے یقین مانیں میرا نہ اس سے کوئی رابطہ رہا نہ ہی کوئی تعلق ہے، آرمی سے اگر کوئی جنرل ریٹائر ہو جائے تو وہ فارغ ہو جاتا ہے اس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی، جب کوئی آرمی جنرل ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو وہ ہیرو سے زیرو ہو جاتا ہے، یہ احمق لوگ ہیں انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتا تھا،
صحافی نے سوال کیا کہ جنرل فیض کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ اپ وفاقی حکومت سے کر رہے ہیں یا ارمی چیف سے؟ عمران خان نے کہا کہ میں جنرل فیض کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ آرمی چیف سے کر رہا ہوں، دنیا میں پاکستان کا کیا امیج رہ جائے گا کہ ایک سابق وزیراعظم کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے۔
صحافی نے سوال کیا کہ جنرل فیض کوئی معمولی جرنل نہیں تھے ان کے پاس بہت سارے راز ہیں وہ سابق ڈی جی ائی ایس آئی تھے؟ عمران خان نے جواب میں کہا کہ میں اسی لیے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کر رہا ہوں تاکہ سارے راز اور سازش بے نقاب ہو جائیں۔